ارے میرے پیارے قارئین! آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب کوئی جائیداد کی قیمت کا اندازہ لگاتا ہے، تو اسے کن مشکل حالات اور پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ مجھے آج بھی یاد ہے، جب میں نے پہلی بار اس شعبے کے بارے میں پڑھا تھا، تو مجھے لگا تھا کہ یہ تو بہت آسان سا کام ہے۔ بس چند اعداد و شمار دیکھے اور قیمت بتا دی۔ لیکن عملی دنیا میں، یہ کہانی کچھ اور ہی ہے۔ آج کل کے تیز رفتار اور مسلسل بدلتے ہوئے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں، جہاں ہر روز نئے چیلنجز سر اٹھاتے ہیں، ایک پراپرٹی ویلیویشن ماہر کا کام صرف کاغذات اور حساب کتاب تک محدود نہیں رہتا۔ انہیں نہ صرف مارکیٹ کے اچانک اتار چڑھاؤ اور معاشی اشاروں کو گہرائی سے سمجھنا ہوتا ہے، بلکہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثرات، جیسے مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ، اور حالیہ قانونی تبدیلیوں کو بھی نظر میں رکھنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی گہری سمندری لہروں میں سفر کر رہے ہوں، جہاں ہر لہر ایک نئی اور انوکھی مشکل لے کر آتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی غلط فہمی یا غلط اندازہ بڑے مالی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے، یا پھر کلائنٹ کے غیر ضروری دباؤ کی وجہ سے کتنی مشکلات پیش آتی ہیں۔ تو چلیں، آج ہم مل کر ان تمام گتھیوں کو سلجھاتے ہیں اور بالکل درست طریقے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جائیداد کے ماہرین کو عملی طور پر کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا مؤثر حل کیا ہو سکتا ہے۔ آئیے، آج اس اہم موضوع پر مکمل طور پر گہرائی میں اترتے ہوئے تمام حقائق کو جانیں۔
بازار کے غیر متوقع اتار چڑھاؤ سے نمٹنا

اقتصادی تبدیلیوں کا گہرا اثر
ارے میرے دوستو! میں آپ کو کیا بتاؤں، جائیداد کی قیمت لگانے میں سب سے بڑی سر درد جو مجھے پیش آتی ہے، وہ ہے بازار کی بے یقینی۔ آج اگر کسی علاقے کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں تو کل پتا چلتا ہے کہ وہ بالکل زمین پر آ گئی ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے، جب ایک بار میں نے ایک بہت پرکشش پراپرٹی کی ویلیویشن کی تھی۔ اس وقت بازار میں خوب تیزی تھی، ہر کوئی خریدنے کے لیے بیتاب نظر آتا تھا۔ لیکن جیسے ہی میں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی، ملک میں اچانک سیاسی ہلچل شروع ہو گئی، اور اس کا سیدھا اثر رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر پڑا۔ ایک دم سے خریدار غائب ہو گئے اور قیمتیں گرنے لگیں۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہمارا کام صرف آج کی صورتحال دیکھنا نہیں، بلکہ مستقبل کے ممکنہ جھٹکوں کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی تجربہ کار ملاح سمندر کی لہروں کو دیکھ کر آنے والے طوفان کا اندازہ لگائے۔ کبھی شرح سود میں تبدیلی، کبھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، اور کبھی کوئی نیا حکومتی منصوبہ – یہ سب چیزیں جائیداد کی قدر پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔ اور ہاں، ایک بات اور، مجھے ذاتی طور پر لگا ہے کہ جب کسی علاقے میں نئے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو وہاں کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں، لیکن اگر وہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوں تو خریداروں کا اعتماد ڈگمگا جاتا ہے۔ اسی طرح، عالمی اقتصادی صورتحال بھی ہمارے مقامی بازار پر اپنے سائے ڈالتی ہے، اور ہمیں ان سب کو سمجھ کر ہی اپنی رائے دینی پڑتی ہے۔ یہ ایک مسلسل سیکھنے کا عمل ہے جہاں ہمیں ہر روز نئی چالیں سیکھنی پڑتی ہیں۔
مقامی اور عالمی رجحانات کا توازن
جب میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کسی پراپرٹی کی قیمت کا اندازہ لگا رہا ہوتا ہوں، تو مجھے صرف کراچی یا لاہور کے بازار کی نہیں سوچنی ہوتی، بلکہ کبھی کبھی عالمی رجحانات پر بھی نظر ڈالنی پڑتی ہے۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ بھئی، ہمارے ہاں سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اگر عالمی معیشت میں کچھ گڑبڑ ہو، تو ان کی جانب سے آنے والی سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے، اور اس کا براہ راست اثر ہماری مقامی رئیل اسٹیٹ پر پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک دفعہ یوروپ میں کچھ معاشی مسائل ہوئے، اور میں نے دیکھا کہ اگلے ہی مہینے ہمارے مقامی بازار میں بڑی جائیدادوں کی خرید و فروخت میں کمی آ گئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے، ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، مقامی طور پر تو ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا علاقہ ترقی کر رہا ہے، کون سا ماند پڑ رہا ہے۔ کسی علاقے میں اگر نئی سڑک بن گئی تو وہاں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، اور اگر کوئی پرانا انفراسٹرکچر خستہ حال ہو جائے تو قیمتیں گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ سب چیزیں ایک ماہر کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مقامی خبروں اور عالمی اقتصادی رپورٹوں کو ساتھ ساتھ پڑھوں تاکہ میری ویلیویشن زیادہ سے زیادہ درست اور قابل اعتبار ہو۔ میرا تجربہ ہے کہ جو ماہر ان دونوں پہلوؤں پر نظر نہیں رکھتا، وہ اکثر غلطی کر بیٹھتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی کرکٹ کا کھلاڑی صرف ایک طرف کی باؤنڈری دیکھ رہا ہو اور دوسری طرف کے خطرے کو نظر انداز کر دے۔
معلومات کی کمی اور بھروسے کا فقدان
قابل موازنہ ڈیٹا کی تلاش میں مشکلات
ہم سب جانتے ہیں کہ صحیح معلومات کے بغیر کوئی بھی فیصلہ درست نہیں ہوتا، اور پراپرٹی ویلیویشن میں تو یہ اصول سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر اکثر اوقات، ہمیں سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہوتا ہے کہ ہمیں قابل بھروسہ اور تازہ ترین ڈیٹا نہیں مل پاتا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب ایک دفعہ مجھے ایک دیہی علاقے میں ایک زمین کی قیمت لگانی تھی جہاں نہ تو کوئی حالیہ خرید و فروخت ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی سرکاری ریکارڈ مکمل تھا۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا، مقامی ایجنٹوں سے بات کی، لیکن سب کی معلومات میں کچھ نہ کچھ کمی تھی یا وہ یکسر مختلف تھیں۔ مجھے لگا جیسے میں اندھیرے میں تیر چلا رہا ہوں۔ شہروں میں بھی ایسا ہوتا ہے، جب کوئی بالکل نئی قسم کی پراپرٹی ہو، جیسے کوئی خاص ڈیزائن کا گھر یا کوئی منفرد کمرشل پلازہ، تو اس کے لیے موازنہ کرنے والی دوسری جائیدادیں ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں، ایک ماہر کو اپنی مہارت اور تجربے کا بھرپور استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ہم پرانی ڈیلز، ملتے جلتے علاقوں کی قیمتیں، اور عمومی مارکیٹ کا رجحان دیکھ کر ایک اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ کئی دفعہ تو ایک ہی گلی میں ایک جیسی دو جائیدادوں کی قیمتوں میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے کیونکہ ایک کے کاغذات مکمل ہوتے ہیں اور دوسری کے نہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے کام کو واقعی بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
جائیداد کے ادھورے ریکارڈز کا مسئلہ
ارے یار، اگر پاکستان میں کوئی ایک چیز ہے جو مجھے سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے تو وہ ہے جائیداد کے ریکارڈز کا ادھورا اور غیر منظم ہونا۔ آپ یقین نہیں کریں گے، کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کلائنٹ ہمارے پاس آتا ہے اور اس کی جائیداد کے کاغذات میں ہزاروں خامیاں ہوتی ہیں۔ کبھی ملکیت کا مسئلہ ہوتا ہے، کبھی حدود کا تعین صحیح نہیں ہوتا، اور کبھی تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ یہ پراپرٹی اصل میں کس مقصد کے لیے رجسٹرڈ ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے ایک بہت پرانی حویلی کی قیمت لگانی تھی جو ایک ہی خاندان میں کئی نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ اس کے کاغذات اتنے بوسیدہ اور الجھے ہوئے تھے کہ مجھے مہینوں لگے صرف یہ سمجھنے میں کہ کون سی چیز کس کی ملکیت ہے۔ ایسے میں، ایک ماہر کے لیے صحیح قیمت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کو کوئی ایسی کہانی سنانی ہو جس کے آدھے صفحات غائب ہوں۔ حکومت کی طرف سے ریکارڈز کو ڈیجیٹل کرنے کی کوششیں تو ہو رہی ہیں، لیکن ابھی بھی بہت سے علاقوں میں پرانے نظام رائج ہیں جہاں غلطیوں اور خامیوں کا امکان بہت زیادہ ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک چھوٹی سی کاغذات کی کمی کی وجہ سے ایک بہت قیمتی پراپرٹی کی قیمت بہت کم ہو گئی، کیونکہ خریدار کو خدشہ تھا کہ اس میں کوئی قانونی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے، ہمیں صرف جائیداد کی ظاہری حالت ہی نہیں دیکھنی ہوتی، بلکہ اس کے اندرونی قانونی ڈھانچے کو بھی بہت گہرائی سے پرکھنا پڑتا ہے۔
کلائنٹ کے مطالبات اور دباؤ کا انتظام
غیر حقیقی توقعات کا بوجھ
یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کا سامنا ہر ماہر کو کرنا پڑتا ہے، اور میں ذاتی طور پر اس سے بہت پریشان ہوتا ہوں۔ کلائنٹ اکثر اپنی پراپرٹی کی قیمت اتنی زیادہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں انھیں حقیقت پسندی کی دنیا میں واپس لانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ایک بار ایک صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے اپنے گھر کی قیمت 2 کروڑ روپے بتائی، حالانکہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت ڈیڑھ کروڑ بنتی تھی۔ میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی، بازار کے رجحانات دکھائے، لیکن وہ بضد رہے کہ ان کا گھر خاص ہے اور اس کی قیمت وہی ہونی چاہیے جو انہوں نے سوچی ہے۔ ایسے میں، ایک ماہر پر بہت دباؤ آ جاتا ہے کہ وہ یا تو کلائنٹ کو ناراض کرے یا اپنی ایمانداری پر سمجھوتہ کرے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ جب کوئی کلائنٹ بہت جذباتی ہو کر اپنی پراپرٹی کی بات کرتا ہے تو اسے حقائق پر مبنی تجزیہ سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارا کام صرف اعداد و شمار بتانا نہیں، بلکہ انہیں اس بات پر قائل کرنا بھی ہے کہ ہماری رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔ کبھی کبھی تو کلائنٹ ہمیں یہ بھی کہتے ہیں کہ “آپ کو کیا پتا، یہ علاقہ کتنا اچھا ہے!” جیسے ہمیں وہاں کے حالات کی خبر ہی نہ ہو۔ ایسے میں صبر اور تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ میرا اصول تو یہی ہے کہ حقائق سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، چاہے کلائنٹ کتنا بھی دباؤ ڈالے۔
جذباتی وابستگیوں کا مالی تجزیہ پر اثر
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی آبائی جائیداد یا اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر بیچنا چاہتا ہے، تو اس کے جذبات کتنے گہرے ہوتے ہیں؟ میں نے ایسے کئی کلائنٹس دیکھے ہیں جو اپنی پراپرٹی سے جذباتی طور پر اتنا جڑے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے اسے صرف ایک مالی اثاثہ سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک خاتون اپنے گھر کی ویلیویشن کروانے آئیں جو ان کے شوہر نے بڑی محنت سے بنایا تھا۔ ان کی ہر بات میں اپنے شوہر کی یادیں اور اس گھر سے وابستہ جذباتی کہانیاں تھیں۔ ان کے لیے اس گھر کی قیمت صرف اس کی اینٹیں، سیمنٹ اور رقبہ نہیں تھی، بلکہ وہ تمام یادیں تھیں جو انہوں نے وہاں گزاری تھیں۔ ایسے میں جب میں نے انہیں مارکیٹ کی حقیقت بتائی کہ ان کی مطلوبہ قیمت اتنی نہیں بن پاتی، تو وہ بہت دل برداشتہ ہوئیں۔ ہمیں ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے، لیکن اپنے پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے، ایک حقیقت پسندانہ رپورٹ دینی پڑتی ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورتحال ہوتی ہے جہاں ہمیں ماہر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ ایسے کلائنٹس کو سمجھایا ہے کہ آپ کی جذباتی وابستگی بہت قیمتی ہے، لیکن بازار کے کچھ اپنے اصول ہوتے ہیں جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ کام کبھی کبھی دل توڑنے والا بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہی ہماری ذمہ داری ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال اور نئے چیلنجز
مصنوعی ذہانت کو اپنانا: فائدے اور خطرات
آج کل ہر طرف AI اور ٹیکنالوجی کی دھوم مچی ہوئی ہے، اور رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی اس سے پیچھے نہیں ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ AI نے ہمیں بہت سے معاملات میں مدد دی ہے۔ خاص طور پر بڑے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور مارکیٹ کے رجحانات کو تیزی سے سمجھنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ مجھے یاد ہے، جب ہم پہلے ایک ایک پراپرٹی کا ڈیٹا ہاتھ سے جمع کرتے تھے اور پھر مہینوں اس پر کام کرتے تھے، لیکن اب جدید سافٹ ویئرز اور AI کی مدد سے یہ کام دنوں میں ہو جاتا ہے۔ لیکن میرے پیارے دوستو، اس کے ساتھ کچھ خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ AI صرف دستیاب ڈیٹا پر ہی کام کرتا ہے۔ اگر ڈیٹا میں غلطی ہو یا وہ ادھورا ہو، تو AI کی رپورٹ بھی غلط ہو سکتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ AI نے ایسی ویلیویشنز دی ہیں جو زمینی حقائق سے دور تھیں۔ کیونکہ AI کو یہ نہیں پتا کہ علاقے میں کوئی نیا شاپنگ مال بن رہا ہے یا کوئی سڑک بن رہی ہے جو مستقبل میں قیمت بڑھا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، AI انسانی تجربے، یعنی ایک ماہر کی آنکھ، اس کی ذاتی رائے اور موقع پر جا کر چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ایک ماہر ہی کسی جائیداد کی خوبیوں اور خامیوں کو گہرائی سے سمجھ سکتا ہے جو صرف ڈیٹا میں نہیں پائی جاتیں۔ ہمیں AI کو ایک مددگار ٹول کے طور پر استعمال کرنا ہے، نہ کہ اسے اپنا کام مکمل طور پر سونپ دینا ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ انسانی بصیرت اور AI کا امتزاج ہی ہمیں بہترین نتائج دے سکتا ہے۔
ڈیجیٹل سیکیورٹی اور ڈیٹا کا تحفظ
جب سے ہم نے اپنے کام میں ٹیکنالوجی کو شامل کیا ہے، ایک نیا اور سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹل سیکیورٹی۔ ہم ہزاروں کلائنٹس کا حساس ڈیٹا، جائیداد کے خفیہ ریکارڈز، اور مالی معلومات اپنے سسٹمز میں محفوظ کرتے ہیں۔ اگر یہ ڈیٹا کسی غلط ہاتھ میں چلا جائے، تو اس کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ایک دفعہ ہمارے دفتر میں ایک سائبر اٹیک کی کوشش ہوئی تھی۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے سیکیورٹی سسٹم مضبوط تھے اور ہم نے بروقت کارروائی کر لی، ورنہ بہت بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف ڈیٹا نہیں، بلکہ لوگوں کا اعتماد اور ان کی مالی سلامتی ہے جو ہم اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت اس بات کا دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے سسٹمز محفوظ ہیں، ہمارے ملازمین کو سیکیورٹی پروٹوکولز کا علم ہے، اور ہم مسلسل اپنے سافٹ ویئرز کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ حکومت بھی اس بارے میں سخت قوانین بنا رہی ہے، اور ہمیں ان تمام قوانین کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسا مسلسل چیلنج ہے جس سے ہم کبھی بھی لاپرواہ نہیں ہو سکتے۔ میرا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں سیکیورٹی ایک مسلسل جنگ ہے جسے ہمیں ہر روز لڑنا پڑتا ہے۔
قانونی اور ضوابطی پیچیدگیاں
ہر روز بدلتے قوانین کی سمجھ
آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے ملک میں جائیداد سے متعلق قوانین کتنی تیزی سے بدلتے ہیں۔ آج کوئی نیا ٹیکس لاگو ہو گیا، کل کوئی نئی ریگولیشن آ گئی، اور پرسوں کسی پرانی ریگولیشن میں ترمیم ہو گئی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں ایک پرانے علاقے میں ایک کمرشل پلاٹ کی قیمت لگا رہا تھا۔ میری ویلیویشن اس وقت کے قوانین کے مطابق بالکل درست تھی۔ لیکن میری رپورٹ جمع ہونے کے چند دن بعد ہی حکومت نے اس علاقے کے لیے ایک نئی ماسٹر پلاننگ متعارف کرا دی جس کے تحت وہاں کی تعمیراتی حدود (FSR) میں تبدیلی آ گئی، اور اس کا سیدھا اثر اس پلاٹ کی ویلیو پر پڑا۔ ایسے میں مجھے دوبارہ سے ساری کیلکولیشن کرنی پڑی۔ ایک ماہر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف موجودہ قوانین سے باخبر نہ ہو بلکہ آئندہ ممکنہ تبدیلیوں پر بھی نظر رکھے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی قانونی ماہر ہر صبح اٹھ کر نئے قوانین کا جائزہ لے تاکہ وہ اپنے کلائنٹس کو صحیح مشورہ دے سکے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ ایک چھوٹی سی قانونی تبدیلی بھی کسی جائیداد کی قسمت بدل سکتی ہے، اور اگر ہم اس سے باخبر نہ ہوں تو ہمارا سارا کام غلط ہو سکتا ہے۔ اسی لیے، ہمیں مسلسل اپنے آپ کو اپ ڈیٹ رکھنا پڑتا ہے۔
علاقائی اور قومی قوانین میں فرق
یہ مسئلہ بھی بہت دلچسپ اور اکثر اوقات سر درد بن جاتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ ایک ہی ملک میں، بلکہ ایک ہی شہر کے مختلف علاقوں میں بھی جائیداد کے قوانین میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی یہ کسی میونسپل کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، کبھی کسی ہاؤسنگ اتھارٹی کے، اور کبھی کسی کنٹونمنٹ بورڈ کے۔ ہر ادارے کے اپنے الگ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے ایک بہت بڑے رقبے کی قیمت لگانی تھی جو تین مختلف انتظامی علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔ ہر حصے کے لیے الگ قوانین اور ٹیکس لاگو ہوتے تھے۔ میرے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ میں کس طرح ان تمام قوانین کو سمجھ کر ایک جامع اور درست رپورٹ بناؤں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کو ایک ہی وقت میں تین مختلف زبانوں میں بات کرنی ہو۔ اس کے علاوہ، بعض اوقات وفاقی قوانین بھی ہوتے ہیں جو صوبائی اور مقامی قوانین سے متصادم ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے تاکہ ہماری رپورٹ قانونی طور پر مضبوط ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو ماہر ان باریکیوں کو نہیں سمجھتا، وہ اکثر قانونی مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔ اسی لیے، ہمارے کام میں صرف مالیاتی تجزیہ ہی نہیں بلکہ ایک مضبوط قانونی بصیرت بھی بہت ضروری ہے۔
پیمائش کے طریقوں میں تنوع اور معیاریت کی کمی

مختلف قسم کی جائیدادوں کی صحیح قیمت لگانا
ہمارا کام صرف مربع فٹ کے حساب سے قیمت لگانا نہیں، بلکہ ہر قسم کی جائیداد کی گہرائی میں اتر کر اس کی منفرد خصوصیات کو سمجھنا ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں، ایک زرعی زمین کی قیمت لگانا، ایک رہائشی پلاٹ کی، ایک کمرشل پلازہ کی، اور ایک فیکٹری کی قیمت لگانا – یہ سب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ہر قسم کی جائیداد کے اپنے اصول اور پیمائش کے طریقے ہوتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ایک بار مجھے ایک بہت پرانی حویلی کی قیمت لگانی تھی جس کی فن تعمیر بہت منفرد تھی۔ اس کے لیے نہ تو کوئی موازنہ کرنے والی جائیداد مل رہی تھی اور نہ ہی کوئی معیاری پیمانہ۔ مجھے اپنی تمام تر مہارت اور تجربے کو بروئے کار لانا پڑا تاکہ میں اس کی اصل قدر کا تعین کر سکوں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر ہر مریض کو ایک ہی دوا نہ دے، بلکہ اس کی بیماری کی نوعیت کے مطابق علاج کرے۔ ہمارے پاس نہ صرف روایتی رہائشی اور کمرشل پراپرٹیز آتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی فارم ہاؤسز، صنعتی یونٹس، اور یہاں تک کہ ہوٹلز کی ویلیویشن بھی کرنی پڑتی ہے۔ ہر ایک کا مارکیٹ الگ ہوتا ہے، خریدار الگ ہوتے ہیں، اور مستقبل کی ترقی کے امکانات بھی الگ ہوتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک ماہر کو ہر قسم کی جائیداد کے بارے میں گہرا علم ہونا چاہیے اور اسے اپنی ویلیویشن کے طریقوں کو اس کے مطابق ڈھالنا آنا چاہیے۔
مختلف ماڈلز کا انتخاب اور ان کا اطلاق
ایک اور چیز جو ہمارے کام کو چیلنجنگ بناتی ہے، وہ ہے ویلیویشن کے مختلف ماڈلز کا انتخاب۔ ہم صرف ایک ہی فارمولا استعمال نہیں کرتے، بلکہ صورتحال کے مطابق مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ کبھی ہم ‘موازنہ فروخت کا طریقہ’ استعمال کرتے ہیں جہاں ہم ملتے جلتے سودوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ کبھی ‘آمدنی کا طریقہ’ جہاں ہم جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیاد پر قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اور کبھی ‘لاگت کا طریقہ’ جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسی نئی جائیداد بنانے پر کتنی لاگت آئے گی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے ایک کرائے پر چلنے والے کمرشل پلازہ کی قیمت لگانی تھی۔ اس کے لیے ‘آمدنی کا طریقہ’ زیادہ مناسب تھا، لیکن ساتھ ہی میں نے ‘موازنہ فروخت کے طریقے’ سے بھی ایک کراس چیک کیا تاکہ میری ویلیویشن زیادہ جامع اور درست ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک شیف ایک ڈش بنانے کے لیے مختلف اجزاء کا استعمال کرتا ہے تاکہ بہترین ذائقہ حاصل کر سکے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سا ماڈل کس صورتحال میں سب سے زیادہ مؤثر ہوگا۔ اور صرف ماڈل کا انتخاب ہی کافی نہیں، بلکہ اس کو صحیح طریقے سے لاگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ کئی دفعہ تو ایک ہی جائیداد پر تین مختلف ماڈلز سے تین مختلف قیمتیں سامنے آ جاتی ہیں، اور پھر ماہر کو اپنی بصیرت اور تجربے کا استعمال کرتے ہوئے ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ قیمت کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے کام کا ایک بہت ہی دلچسپ اور تخلیقی پہلو ہے۔
اخلاقی چیلنجز اور غیر جانبداری برقرار رکھنا
ذاتی تعصبات پر قابو پانا
ہم انسان ہیں اور انسانوں میں تعصبات کا ہونا فطری ہے۔ لیکن ایک پراپرٹی ویلیویشن ماہر کے طور پر، ہمیں اپنے تمام ذاتی تعصبات کو ایک طرف رکھ کر مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ایک دفعہ مجھے اپنے ایک قریبی دوست کی جائیداد کی قیمت لگانی تھی۔ یہ میرے لیے بہت مشکل صورتحال تھی کیونکہ میں اپنے دوست کا نقصان بھی نہیں چاہتا تھا اور اپنی ایمانداری پر سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس وقت بہت غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اس کیس میں مجھے خود کو الگ رکھنا چاہیے اور کسی اور ماہر کو یہ کام سونپنا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا، لیکن یہ میرے پیشے کی اخلاقیات کا تقاضا تھا۔ ہمیں کسی بھی صورت میں کلائنٹ کی حیثیت، اس کے مذہب، اس کی ذات یا اس کے کسی بھی ذاتی پس منظر کی بنیاد پر اپنی رائے کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ جو ماہر اپنے تعصبات پر قابو نہیں پاتا، وہ اپنے پیشے کو داغدار کرتا ہے۔ ہمارا کام انصاف اور حقائق پر مبنی ہونا چاہیے، اور اس میں کسی بھی قسم کی ذاتی پسند یا ناپسند کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے، ہم اکثر ایسے معاملات میں جہاں ہمیں لگے کہ ہماری غیر جانبداری متاثر ہو سکتی ہے، وہاں یا تو خود کو الگ کر لیتے ہیں یا پھر بہت محتاط ہو کر کام کرتے ہیں۔
مفادات کے تصادم سے بچنا
یہ ایک اور اخلاقی دلدل ہے جس میں ایک ماہر آسانی سے پھنس سکتا ہے۔ مفادات کا تصادم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک ماہر کا ذاتی فائدہ یا اس کے کسی رشتے دار کا فائدہ اس کے پیشے ورانہ فرائض سے ٹکرا جائے۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے ایک ڈویلپر کی پراپرٹی کی قیمت لگانی تھی جس کے ساتھ میرے ایک رشتہ دار کا کاروبار تھا۔ اگر میں اس ویلیویشن کو کرتا تو یہ ممکن تھا کہ لوگ میری ایمانداری پر شک کرتے۔ میں نے فوراً اس صورتحال کی اطلاع اپنے سینئرز کو دی اور خود کو اس کیس سے الگ کر لیا۔ یہ فیصلہ مشکل تھا، لیکن میرے ضمیر نے مجھے یہی کرنے کا کہا۔ ہمارے پیشے میں شفافیت بہت ضروری ہے۔ اگر لوگوں کو یہ لگے کہ ہم کسی کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کر رہے ہیں، تو ہمارا اعتبار ختم ہو جاتا ہے، اور ایک ماہر کے لیے اعتبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے، ہمیں ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جہاں ہمارے مفادات ہمارے پیشے ورانہ فیصلے پر اثر انداز ہوں۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ جب ایک ماہر اپنے آپ کو ایسی صورتحال سے بچاتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنی عزت بچاتا ہے بلکہ پورے پیشے کی عزت بھی برقرار رکھتا ہے۔
| چیلنج | ممکنہ اثرات | ممکنہ حل |
|---|---|---|
| بازار کا اتار چڑھاؤ | قیمت میں غیر متوقع تبدیلی، کلائنٹ کا عدم اطمینان | تازہ ترین مارکیٹ ڈیٹا کا مسلسل تجزیہ، اقتصادی اشاروں پر نظر |
| معلومات کی کمی | غلط ویلیویشن، کلائنٹ کا اعتماد مجروح ہونا | مختلف ذرائع سے ڈیٹا کی تصدیق، زمینی حقائق کا مشاہدہ |
| کلائنٹ کا دباؤ | اخلاقی سمجھوتہ، غلط رپورٹ کی اشاعت | واضح کمیونیکیشن، پیشے ورانہ اصولوں پر سختی سے عمل |
| قانونی پیچیدگیاں | قانونی مسائل، رپورٹ کی قانونی حیثیت پر سوال | قوانین سے مسلسل باخبری، قانونی ماہرین سے مشاورت |
تازہ ترین اقتصادی اشاریوں کو سمجھنا اور ان کا اطلاق
مہنگائی اور شرح سود کا گہرا تجزیہ
میرے پیارے پڑھنے والو، جب بھی میں کسی جائیداد کی قیمت لگاتا ہوں تو مجھے صرف اس پراپرٹی کی موجودہ حالت ہی نہیں دیکھنی ہوتی، بلکہ ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھنی پڑتی ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مہنگائی اور شرح سود کس طرح ہماری جائیداد کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہے؟ مجھے یاد ہے، جب مرکزی بینک شرح سود بڑھا دیتا ہے تو اکثر لوگ قرض لے کر گھر خریدنے سے کتراتے ہیں، جس سے مارکیٹ میں خریدار کم ہو جاتے ہیں اور قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔ اس کے برعکس، جب شرح سود کم ہوتی ہے تو لوگ آسانی سے قرض لیتے ہیں اور گھروں کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے۔ میں ذاتی طور پر ہر مہینے مہنگائی کے اعداد و شمار اور شرح سود کے فیصلوں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ صرف کاغذ پر موجود اعداد و شمار نہیں، بلکہ لوگوں کی قوت خرید اور مارکیٹ کے رجحان کا براہ راست اشارہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک علاقے میں انفراسٹرکچر کی ترقی ہو رہی ہوتی ہے، لیکن اگر ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہو تو اس علاقے کی جائیدادوں کی قیمتیں اس رفتار سے نہیں بڑھتیں جس رفتار سے انہیں بڑھنا چاہیے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جو ماہر ان اقتصادی عوامل کو نظر انداز کرتا ہے، وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھتا ہے اور اس کی ویلیویشن حقیقت سے دور ہو سکتی ہے۔
مستقبل کے مارکیٹ رجحانات کی پیشن گوئی
یہ ایک ایسا پہلو ہے جہاں ایک ماہر کا تجربہ اور بصیرت سب سے زیادہ کام آتی ہے۔ ہمیں صرف آج کی صورتحال نہیں دیکھنی ہوتی، بلکہ مستقبل میں مارکیٹ کس طرف جا سکتی ہے، اس کا بھی ایک اندازہ لگانا ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی موسم کا ماہر آنے والے موسم کا حال بتائے۔ میں آج بھی یاد کرتا ہوں، جب ایک بار میں ایک ایسے علاقے کی ویلیویشن کر رہا تھا جو اس وقت بہت پسماندہ تھا، لیکن مجھے سرکاری ذرائع سے پتا چلا کہ وہاں ایک بہت بڑا روڈ نیٹ ورک بننے والا ہے۔ میں نے اپنی رپورٹ میں اس ممکنہ ترقی کو مدنظر رکھا اور اس کی وجہ سے جائیداد کی مستقبل کی قیمت میں اضافے کا ذکر کیا۔ بعد میں جب وہ روڈ بن گیا تو اس علاقے کی قیمتیں واقعی کئی گنا بڑھ گئیں۔ یہ ہمارے کام کا سب سے دلچسپ حصہ ہے جہاں ہمیں نہ صرف اعداد و شمار پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے بلکہ اپنی ذاتی سمجھ بوجھ اور مارکیٹ کے گہرے تجزیے کو بھی استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سی نئی صنعتیں آ رہی ہیں، کون سی آبادی کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اور کون سے نئے شہر منصوبہ بندی کے تحت بن رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں مستقبل کے رجحانات کا تعین کرتی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک اچھے ماہر کو صرف ماضی اور حال کا نہیں، بلکہ مستقبل کا بھی ایک اچھا نقاد ہونا چاہیے۔
رئیل اسٹیٹ میں غیر رسمی سیکٹر اور اس کے اثرات
بے ترتیب ترقی اور غیر رجسٹرڈ جائیدادیں
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک بڑا حصہ غیر رسمی رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر مشتمل ہے۔ بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں، پلاٹ کاٹے جاتے ہیں، مکانات بن جاتے ہیں، لیکن سب کچھ غیر قانونی یا نیم قانونی طریقے سے ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے ایسے ہی ایک علاقے میں ایک گھر کی قیمت لگانی تھی جو کئی دہائیوں سے بنا ہوا تھا، لیکن اس کے کاغذات مکمل نہیں تھے۔ وہاں نہ تو کوئی صحیح نقشہ تھا اور نہ ہی کوئی سرکاری ریکارڈ جس سے میں اس کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکوں۔ ایسے حالات میں، ایک ماہر کے لیے صحیح قیمت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ایک تو قانونی خطرات زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرا اس کی خرید و فروخت بھی مشکل ہوتی ہے۔ خریدار بھی ایسی جائیدادوں سے کتراتے ہیں جہاں قانونی مسائل کا اندیشہ ہو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک اچھی لوکیشن پر ہونے کے باوجود، صرف کاغذات کی کمی کی وجہ سے ایک پراپرٹی کی قیمت بہت کم لگائی جاتی ہے۔ ہمیں ان تمام مشکلات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اور اپنی رپورٹ میں ان کا ذکر کرنا پڑتا ہے تاکہ کلائنٹ کو تمام حقائق سے آگاہی ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک اندھیرے کمرے میں کوئی راستہ تلاش کرنا، جہاں ہر قدم پر پھسلنے کا ڈر ہو۔
غیر رسمی ڈیلز اور ان کا مارکیٹ پر اثر
ایک اور اہم چیلنج جو ہمیں پیش آتا ہے وہ ہے غیر رسمی ڈیلز جو اکثر ‘کچے پرچی’ یا ‘زبانی کلامی’ ہوتی ہیں۔ یعنی لوگ آپس میں خرید و فروخت کر لیتے ہیں لیکن اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں ہوتا یا وہ بہت تاخیر سے رجسٹر ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک دفعہ مجھے ایک علاقے کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کرنا تھا، لیکن جب میں نے مقامی ایجنٹوں سے معلومات لی تو بہت ساری ڈیلز ایسی تھیں جن کا کوئی تحریری ثبوت نہیں تھا۔ وہ سب آپس میں جاننے والے تھے اور انہوں نے صرف اعتماد کی بنیاد پر سودے کیے ہوئے تھے۔ ایسے میں، مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ کیا ان غیر رسمی ڈیلز کو اپنی ویلیویشن کا حصہ بنایا جائے یا نہیں، اور اگر بنایا جائے تو کس حد تک۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک استاد کو امتحان میں ایسے سوالات ملیں جن کا کوئی مقررہ نصاب نہ ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ ان غیر رسمی ڈیلز کی وجہ سے مارکیٹ میں ایک قسم کی غیر یقینی پیدا ہو جاتی ہے اور صحیح قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ ڈیلز حقیقی مارکیٹ قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کبھی بہت کم، جس سے ایک ماہر کے لیے الجھن بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے اور صرف رجسٹرڈ ڈیلز پر ہی زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، اگرچہ غیر رسمی مارکیٹ کا بھی ایک اثر ضرور ہوتا ہے جسے ہم مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتے۔
آخر میں کچھ کہنا چاہوں گا
میرے عزیز دوستو، میں امید کرتا ہوں کہ پراپرٹی ویلیویشن کے ان پہلوؤں کو جان کر آپ کو کافی نئی بصیرت ملی ہوگی۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں ہر روز نئے چیلنجز سامنے آتے ہیں، کبھی بازار کی بے یقینی تو کبھی معلومات کی کمی۔ لیکن یہی وہ مشکلیں ہیں جو ہمارے کام کو دلچسپ بناتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ایک سچا ماہر وہی ہے جو ان تمام رکاوٹوں کو پار کرکے حقائق پر مبنی اور قابل اعتماد رائے دے۔ یاد رکھیں، جائیداد کی خرید و فروخت صرف لین دین نہیں، بلکہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں آپ کی زندگی بھر کی محنت شامل ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیشہ کسی ایسے ماہر کی طرف رجوع کریں جو نہ صرف تجربہ کار ہو بلکہ ایماندار بھی ہو۔
چند مفید باتیں جو آپ کو معلوم ہونی چاہئیں
1. کسی بھی جائیداد کی خرید سے پہلے اس کے تمام قانونی کاغذات اور ریکارڈز کی مکمل چھان بین کروائیں۔ یہ آپ کو مستقبل کی پریشانیوں سے بچائے گا۔
2. مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھیں اور صرف آج کی قیمت دیکھ کر فیصلہ نہ کریں۔ اقتصادی اشاریے جیسے مہنگائی اور شرح سود کو بھی مدنظر رکھیں۔
3. ہمیشہ کسی مستند اور تجربہ کار ویلیویشن ماہر کی خدمات حاصل کریں۔ ان کی رائے آپ کو غلط فیصلوں سے بچا سکتی ہے۔
4. جائیداد سے متعلق نئے قوانین اور حکومتی پالیسیوں سے باخبر رہیں۔ ایک چھوٹا سا قانونی پہلو بھی بہت اہم ہو سکتا ہے۔
5. اپنی جائیداد سے جذباتی وابستگی سمجھ میں آتی ہے، لیکن مالی فیصلے ہمیشہ زمینی حقائق اور مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر کریں۔
اہم نکات کا خلاصہ
اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جائیداد کی قیمت کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں بازار کے رجحانات، قانونی پہلو، ڈیٹا کی دستیابی، اور اخلاقی ذمہ داریاں سب شامل ہیں۔ ایک ماہر کو نہ صرف اعداد و شمار کا علم ہونا چاہیے بلکہ اسے انسانی جذبات اور مستقبل کے امکانات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی ایک مددگار ٹول ہے، لیکن انسانی بصیرت اور تجربہ ہمیشہ اس کا بہترین متبادل رہے گا۔ اپنے سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے اور بہترین فیصلہ کرنے کے لیے، مسلسل سیکھتے رہیں اور درست معلومات پر انحصار کریں۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: آج کے مسلسل بدلتے ہوئے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں جائیداد کی قیمت لگانے والے ماہرین کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ج: میرے عزیز دوستو، یہ سوال بالکل صحیح وقت پر پوچھا گیا ہے! سچ کہوں تو، جب میں نے اس شعبے میں قدم رکھا تھا، تو سوچا تھا کہ بس چند فارمولے یاد کر لینے سے کام چل جائے گا۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ مارکیٹ کا مزاج سمجھنا۔ یہ آج ایک رخ اختیار کرتا ہے اور کل دوسرا۔ معاشی حالات، حکومت کی نئی پالیسیاں، یہاں تک کہ بین الاقوامی واقعات بھی جائیداد کی قیمتوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار، ایک گاہک کی جائیداد کی قیمت لگانی تھی، اور عین اسی وقت حکومت نے ایک نیا ٹیکس متعارف کروا دیا، جس سے پورا حساب کتاب ہی بدل گیا۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ کو بارش کے موسم میں بغیر چھتری کے باہر نکلنا پڑے۔ آپ کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے اور ہر نئے چیلنج کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں، بلکہ اس میں بصیرت اور تجربے کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
س: بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI) جائیداد کی قیمت لگانے کے عمل کو کیسے متاثر کرتی ہے اور اس کے کیا فوائد اور چیلنجز ہیں؟
ج: ٹیکنالوجی… آہ! یہ ایک ایسا میدان ہے جو روز بروز اپنی اہمیت منوا رہا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت نے اس شعبے کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ ایک طرف تو یہ ڈیٹا کا بے پناہ تیزی سے تجزیہ کرتی ہے، جس سے ہم بہت کم وقت میں زیادہ درست معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے ایک پراپرٹی کی پوری ہسٹری نکالنے میں دن لگ جاتے تھے، اب AI کی مدد سے یہ کام چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے، خاص طور پر جب آپ کے پاس درجنوں کیسز ہوں اور وقت کم ہو۔ لیکن دوسری طرف، اس کے اپنے چیلنجز بھی ہیں۔ AI مکمل طور پر ڈیٹا پر منحصر ہے، اور اگر ڈیٹا میں کوئی غلطی ہو یا وہ پرانا ہو، تو نتائج بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، AI انسانی فیصلے، بازار کے مقامی احساس اور غیر محسوس عوامل کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا، جو ایک ماہر ہی سمجھ سکتا ہے۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ AI ایک بہترین معاون ہے، لیکن مکمل متبادل نہیں۔ یہ گاڑی کا انجن تو ہے، لیکن اسے چلانے کے لیے ڈرائیور کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
س: جائیداد کے ماہرین ایک غیر مستحکم مارکیٹ میں درستگی کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں اور قانونی تبدیلیوں اور کلائنٹ کے دباؤ جیسے بیرونی عوامل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
ج: یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر ماہر کو پریشان کرتا ہے، خاص طور پر جب مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال ہو۔ درستگی برقرار رکھنا میرے نزدیک ایک فن ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ آپ مسلسل اپنے علم کو تازہ رکھیں۔ نئی قانونی تبدیلیاں، حکومتی نوٹیفیکیشنز، ٹیکس کے اصول…
یہ سب کچھ آپ کی انگلیوں پر ہونا چاہیے۔ میں خود کو اس معاملے میں ہمیشہ ایک طالب علم سمجھتا ہوں، جو روز کچھ نیا سیکھتا ہے۔ جہاں تک کلائنٹ کے دباؤ کا تعلق ہے، تو یہ ایک نازک معاملہ ہے۔ کبھی کبھی کلائنٹ اپنی پسند کی قیمت چاہتا ہے، جو مارکیٹ کے مطابق نہیں ہوتی۔ ایسے میں بڑے تحمل اور مہارت سے انہیں حقائق سے آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ شفافیت اور ایمانداری ہی اس معاملے میں سب سے بہترین حکمت عملی ہے۔ تمام ممکنہ حالات اور رسک کو واضح طور پر بتانے سے غلط فہمیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ آخرکار، ہمارا مقصد صرف قیمت بتانا نہیں، بلکہ ایک قابل اعتماد اور درست تجزیہ پیش کرنا ہے، جو کلائنٹ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ یہ ایک پتلی رسی پر چلنے کے مترادف ہے، جہاں توازن برقرار رکھنا سب سے اہم ہوتا ہے۔






